مسلمان اور یہودی — گفتگو کا تسلسل

مہناز آفریدی

یروشلم: یروشلم کے ایک قہوہ خانے میں سٹول پر بیٹھ کر میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ بہت سے اسرائیلی آدمی ادھر اُدھر آرام سے بیٹھے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ میں نے بہت سکون محسوس کیا لیکن فوجیوں کے تھکے ہوئے چہرے مختلف کہانی سنا رہے تھے۔ ان کے لئے یہ لمحات ان دشمنوں کی یاد سے کچھ دیر کے لئے پیچھا چھڑانے کا موقع تھے جو یروشلم کی پہاڑیوں سے پَرے ان کے ساتھ طویل عرصے سے الجھے ہوئے تھے۔

گہری نیلی آنکھوں والا ایک نوجوان مجھے دیکھتا ہوا میرے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے شانے سے بندوق لٹک رہی تھی۔ نوجوان نے اپنے لئے مشروب منگوایا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ کا تبادلہ کیا جس پر وہ میرے ساتھ والے سٹول پر بیٹھ گیا۔

اس نے مجھ سے ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نیویارک سے آئی ہوں جہاں میں آثارِ قدیمہ اور بائبل کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اتنے پراسرار مضامین کا انتخاب کیوں کیا جس پر میں نے اسے یاد دلایا کہ یروشلم میں تو یہ مضامین عام ہیں اور ہر شخص اس جگہ کی حقیقت جاننے اور سمجھنے کے لئے یہاں آتا ہے۔

اس نے مشروب کا بڑا سا گھونٹ لیا اور کہا " لیکن ایک یہودی کی حیثیت سے آپ یہ تو جانتی ہی ہوں گی کہ یہ ہمارا آبا ئی وطن ہے؟ "

تب مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے امریکی یہودی خاتون سمجھ رہا تھا جو اپنے "گھر" کا چکر لگانے آئی ہے۔

" خیر، نہیں۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ میں یہودی نہیں ہوں۔ اور دوسری یہ کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ یہ سرزمین کس کی ہے۔۔۔" میں نے بڑے آرام سے بات کرتے ہوئے کہا۔

" اگر تم یہودی نہیں ہو تو یقیناً کیتھولک عیسائی ہوگی۔ ہے نا؟ " اس نے اپنا گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

میں نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا " نہیں، میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق پاکستان سے ہے۔" وہ مسکرایا کہ شاید میں مذاق کررہی ہوں، " ارے جانے دو۔۔۔ کوئی مسلمان اس طرح یہاں نہیں آتا، خاص طور پر کوئی عورت یوں قہوہ خانے میں نہیں آتی۔"

اسے یقین دلانے کے لئے میں نے اپنے بیگ کا ایک خانہ کھولا اور اس میں سے چمک دار سبز رنگ کا اپنا پاسپورٹ نکالا جس پر اردو اور انگریزی میں سنہرے حروف سے " اسلامی جمہوریہ پاکستان" لکھا تھا۔ اس نے ایک نظر پاسپورٹ پر ڈالی اور چِلاّ کر قہوہ خانے میں موجود دیگر لوگوں سے عبرانی میں کچھ کہا۔ اگلے ہی لمحے قہوہ خانہ خالی ہوگیا اور وہاں صرف میں اور قہوہ خانے کا ملازم رہ گئے۔ میں جسیے منجمد ہوکر اپنے سٹول پر بیٹھی رہ گئی۔ مجھے اپنے مخاطب کے یوں غائب ہونے پر حیرت بھی تھی اور افسوس بھی۔

اس بات کو اٹھارہ سال بیت چکے ہیں اور تب سے میں نے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تفہیم کو فروغ دینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے تاکہ دونوں فریق" دوسرے" کے خوف سے باہر نکل سکیں۔ اب یہودیوں کے ساتھ کام کرنا اور امن کے لئے امیدوں میں شریک ہونا میرے لئے ایک روشن کُن تجربہ ہے۔

میں نے جرمنی میں میونخ اور داخاؤ کی جیلوں کا دورہ کیا ہے، اروا انسٹی ٹیوٹ اور '' مسلم فار پروگریسو ویلیوز'' جیسے مالی منفعت کے لالچ کے بغیر چلنے والے اداروں کے ساتھ بھی کام کرچکی ہوں جو یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لئے باہمی احترام کا اظہار کرتے ہیں۔ مجھے لیونٹائن کلچرل سینٹر کی طرف سے فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی فوج کی پالیسیوں سے نالاں مسلمانوں سے گفتگو کے لئے بھی مدعو کیا گیا تھا اور ان یہودیوں سے بات کرنے کے لئے بھی بلایا گیا جو انتہاپسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے مسلمانوں پر اعتبار نہیں کرتے۔

اس سارے عرصے میں میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان بقائے باہمی اور اعتماد کی فضا صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتی ہے اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں۔ مشترکہ زمین تو موجود ہے۔ اسلام اور یہودیت دونوں میں لوگ روحانی رہنمائی کے لئے مذہبی پیشواؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور جب بھی کبھی مشکلات کا سامنا ہو تو دونوں مذاہب کے پیروکار نماز، روزے، خیرات، غربا و مساکین کو کھانا کھلانے اور عبادات میں خشوع و خضوع کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ یہ مماثلت اس وقت مزید واضح ہوجاتی ہے جب ہم اسلام کا آرتھوڈوکس یہودیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔

مسلمان کی حیثیت سے ہم یہودیوں کی تاریخ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، بالخصوص ہولوکاسٹ سے پہلے اور بعد کے مصائب کا انہوں نے کیسے مقابلہ کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد کے دور میں یہودی ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپ میں پیش آنے والی مشکلات اور ان پر قابو پانے کی کوششوں کے بارے میں بتا کر مسلمانوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی یہودیوں کو اپنی کمیونیٹیز میں شامل کرنے اور یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کے خلاف کام کرنے جیسے منفی دقیانوسی تصوّرات کو توڑنے کے لئے بہتر کوشش کر سکتے ہیں۔

اٹھارہ سال پہلے جس یہودی فوجی سے میں ملی تھی وہ اگر ایک لمحہ ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کرتا کہ میں نہ صرف اسرائیل بلکہ فلسطین کے بارے میں بھی اپنے احساسات کی چھانٹی کرنے یروشلم گئی تھی، تو شاید ہم اپنے عقائد، اپنی قومی وفاداریوں اور گھر کے لئے اپنی محبّت میں موجود مشترکات کو دیکھ پاتے اور ہوسکتا ہے کہ ہم دوستی کر لیتے۔

میں اس دن کا خواب دیکھ رہی ہوں جس روز یہودی اور مسلمان بحیثیت انسان ایک دوسرے پر اعتماد کرکے قریب آئیں گے اور ہم اس گفتگو کو جاری رکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔

###

0 comments:

Post a Comment