دنیا کے نقشے میں ایک دیس ہے ایسا
جہاں لوگ یونہی مر جاتے ہیں
بارش نہ ہو تو ترستے ہیں
بارش ہو تو مرجاتے ہیں
دکھی ہوں تو خود کشی کر جاتے ہیں
خوش ہوں تو ہوائی فائرنگ سے مرجاتے ہیں
سردی آئے تو ٹھنڈ سے جم جاتے ہیں
اور گرمی آئے تو حدت سے مرجاتے ہیں
ہے ایسا ایک دیس میرا
دنیا کے نقشے پر سبز ہلالی ایک دیس مرا
جہاں جھوٹ والے بچ جاتے ہیں
اور سچے لوگ یونہی مر سے جاتے ہیں
آمریت میں گھٹ گھٹ کرجیتے ہیں
جمہوریت آئے تو آذادی سے ہی مرجاتے ہیں ۔
اور جہاں
!
محلوں والے سنگِ مر مر کی بے حسی میںدب جاتے ہیں
اور جھونپڑیوں والے ٹاٹوں کے کچے پن سے مر جاتے ہیں
کہیں لوگ بھوک ننگ سے کرلاتے ہیں
اور کہیں ذیادہ کھانے سے مر جاتے ہیں
کہیںبموں کی آگ میں دب جاتے ہیں
اور کہیں آگ، روشنی نہ ہونے سے مرجاتے ہیں
پوری دنیا میں ہے ایک انوکھا سا دیس میرا
جہاں لوگ یونہی ہر پل ، ہر دم مر سے جاتے ہیں ۔
بے بسی
ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں اور
آنکھ پر ہاتھ رکھے گذر رہے ہیں
اور جئے جارہے ہیں ؟
کسی کی آنکھ کی پتلی اور کسی کے بازو کا ریشہ
یوں ہوا میں اڑتے دیکھ رہے ہیں اور جئے جارہے ہیں
چائے کی چسکی کے ساتھ کہیں کسی کی عزت لٹنے کی خبر پڑھ رہے ہیں
کسی بچے کو اپنی ٹانگ اٹھائے دیکھ رہے ہیں
موت کو تماشا بنتے دیکھ رہے ہیں
جھوٹے کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہیں کر پارہے
سلے لبوں کے ساتھ ،مردہ روح کے ساتھ
انتہا کو پہنچی ہوئی بزدلی کے ساتھ
جئے جارہے ہیں
جئے جارہے ہیں
کلمہءِحق کو دفنائے مدتیں گذر گئیں
خودی کے لاشے پر طبلے بھی بجا چکے
عزتِ نفس کا جنازہ بھی پڑھا جاچکا
جسموں اور روحوں کی نیلامی بھی ہوگئی
اور ہم ہیں کہ جئے ہی جارہے ہیں ۔
معصوم موتوں کو نظر انداز کرنا بھی سیکھ لیا
دکھ کی کہانی پر کھلکھلا کر ہنسنسا بھی آگیا
بے حسی کی ساری منزلیں طے کر کے
شرمندگی کو دفنا کر
اب ہم ذندگی کو جئے جارہے ہیں
اوربہت مردوں کے درمیاں
مردہ خانے میں ذندگی کو جئے جارہے ہیں ۔
1 comments:
Nice Shearing
Post a Comment