سلام فوبیا اورافریقی امریکی مسلمانوں کا کردار

فہیم شعیب

اوک لینڈ، کیلی فورنیا: جب بھی مغرب میں اسلام کے بارے میں بلاوجہ پائے جانے والے خوف کی بات ہو تو ساتھ ہی ذہن میں آتا ہے کہ افریقی نژاد امریکی مسلمان اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض امریکی مسلمانوں کو ایک ایسی بیماری قرار دیتے ہیں جسے جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ کسی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لئے ویکیسین تیار کرنے کے عمل میں ہوتا ہے، بسا اوقات بیماری ہی شفا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

افریقی امریکیوں نے ماضی میں کئی طرح کی دقیانوسیت کا سامنا کیا ہے جن میں سرِ عام گالیاں اور بنیادی انسانی حقوق سے مکمل محرومی شامل ہے۔ اس روّیے نے ایک محرومیت زدہ ثقافتی طبقے اور جذباتی بگاڑ کو جنم دیا۔ افریقی امریکی مسلمانوں کی کئی پُشتوں نے اس درجہ بندی پر قابو پانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔
چنانچہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جب کچھ لوگ مسلمانوں کے بارے میں جارحانہ اور منفی طور پر دقیانوسی خیالات کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ کبھی افریقی نژاد امریکیوں کے بارے میں کیا جاتا تھا، تو اس سے پورے ملک میں اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا سبب ٹی وی کے بعض ٹاک شوز کے میزبان اور چند دیگر لوگ ہیں جو مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے القابات استعمال کرتے ہیں اور سوسایٹی میں معاندانہ جذبات یا مخالفت کو ہوا دیتے ہیں۔

گیارہ ستمبر کے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کا لباس پہنے ایک خاتون سان گیبرئیل میں روزمرّہ سامانِ خوردونوش کی خریداری میں مصروف تھی کہ اس پر اچانک ایک کاکیشائی خاتون نے حملہ کردیا جو چِلاّ کر کہہ رہی تھی " امریکہ صرف سفید فام لوگوں کے لئے ہے!" یہ واقعہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں شہری حقوق کی تحریک کے دوران افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی یاد دہانی کراتا ہے جب ہوٹلوں میں کھانے کے کاؤنٹرز پر " صرف سفید فاموں کے لئے" لکھا ہوتا تھا۔ اس قسم کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں رہنے والے مسلمان کس حد تک ناپسندیدہ اقلیت بن چکے ہیں اور موجودہ ماحول میں ان سے بیگانگی برتی جارہی ہے۔

اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل ثقافتی انقلاب سے کم کچھ اور نہیں ہوسکتا۔

ثقافت افراد کے گروہوں کو درپیش مسائل اور ان کا جو حل وہ تلاش کرتے ہیں اس سے جنم لیتی ہے۔ ثقافت کے پروان چڑھنے کا عمل بھی انہی خطوط پر استوار ہوتا ہے:

ابتدا میں لوگوں کے ایک گروہ کو کوئی خاص مسئلہ مثلاً نسلی یا مذہبی اعتبار سے پیچھے رکھنا یا غلط فہمیوں کا شکار بنانا وغیرہ پیش آتا ہے۔ پھر وہ لوگ جن کے اندر مطلوبہ جبلّت ہوتی ہے، وہ اپنی فطری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسئلے کا حل، مثلاً بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرنا، پیش کرتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں اس حل کے کامیاب نفاذ، مثلاً نئے شہری حقوق کے بارے میں قانون سازی متعارف کرانا وغیرہ کا نتیجہ چوتھے مرحلے میں ایک منّظم نظریے – شہری حقوق کی تحریک – کی شکل میں نکلتا ہے۔ پانچویں مرحلے میں نظریہ ادارے کی حیثیت اختیار کرتا ہے اور بالآخر ایک ایسی ثقافت جنم لیتی ہے جو اس نظریے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی ہے۔

چاہے یہ اتفاق ہو یا ان کی اپنی مرضی، تمام انسان کسی نہ کسی طرح کی ثقافت کے اندر رہتے ہیں۔ ایک ثقافت کی جگہ کوئی دوسری ثقافت ہی لے سکتی ہے اور یہ عمل نقل مکانی یا پھر اس ثقافت کی کایا کلپ سے ہوسکتا ہے۔ جب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں اسلام کا ڈر بڑھتا جا رہا ہے تو یہ بات قابلِ فہم لگتی ہے کہ دراصل مغرب کی ثقافت اپنا موجودہ تشخّص کھو جانے اور، جیسا کہ کبھی کبھی لگتا ہے، اس کی جگہ مسلمان سمجھی جانے والی عرب، ایشیائی یا افریقی ثقافتوں کے آجانے سے خوفزدہ ہے۔

ایک امریکی کی حیثیت سے، جو اتفاق سے مسلمان بھی ہے، میں یقیناً یہ بات سمجھ سکتا ہوں۔ امریکہ میں تمام مسلمان قانون کے رُو سے بلا روک ٹوک شیعہ، سُنّی یا کسی بھی فرقے کے ساتھ تعلق سے قطع نظر اسلام کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلام فوبیا بڑھنے سے اس آزادی کی وقعت کم ہو گئی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اسلام فوبیا کے مسئلے کا حل افریقی نژاد مسلمانوں کی طرف سے آسکتا ہے جنہوں نے شہری حقوق کے دور کے آغاز میں اسلام قبول کیا اور کردار کی ان خصوصیات اور ثقافتی رویّوں کو مسترد کیا جو امریکی ثقافت نے اپنے سابقہ غلاموں پر مسلط کئے تھے۔ یہ لوگ اب امریکی معاشرے میں قابل ِ قدر کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن افریقی نژاد امریکی مسلمان کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

اوّل: علاج کی تلاش میں اس گروہ کو کھنگالنے کے لئے مجموعی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ میل جول کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکی اور مسلمان دونوں حیثیتوں میں ایک دوسرے کو بہتر انداز میں جان سکیں۔

دوم: دنیا کے بارے میں اس نقطہً نظر کی گہری آگہی بنیادی اہمیت کی حامل ہے جو افریقی نژاد مسلمانوں کے افعال اور حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ یعنی یہ حقیقت کہ ایک سچّا افریقی امریکی مسلمان تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے اور قرآن کی ابدی اور آفاقی اقدار پر مضبوطی سے قائم رہتا ہے جو حسد، انتقام اور تعصّب سے منع کرتی ہیں۔

افریقی نژاد امریکی مسلمانوں کے اس انوکھے تجربے کو اجاگر کرنے سے مغرب والے یہ پوچھنے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ "اگر اسلام کے ان لوگوں میں بھی یہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جن کی ثقافت بُری طرح ختم کردی گئی تھی تو پھر اسلام سے خوفزدہ ہونے والی کون سی بات ہے؟"

آج کل افریقی امریکی مسلمانوں کو جو حقوق اور فوائد حاصل ہیں ان کا ثانی پوری مسلم دنیا میں نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ لوگ تاریخ میں سب سے زیادہ غیر انسانی حیثیت رکھنے والا گروہ تھے لیکن اب وہ مفید اور محبّ ِوطن امریکی شہری ہیں جو اپنی سماجی اور سیاسی شمولیت کے ذریعے امریکی معاشرے کی تراش خراش میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

چنانچہ امریکہ کے افریقی مسلمان ایسی منفرد پوزیشن میں ہیں جہاں وہ اعلانِ آزادی اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے اسلام فوبیا کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کی علامت ہیں کہ کیسے اسلام شکست خوردہ لوگوں کو ایسے مفید اور متحرک افراد میں تبدیل کر سکتا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی ماحول کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہیں جنہوں نے خوف اور امتیازی برتاؤ سہا ہے اور اب یہ ثقافتی امتیاز اور غلط فہمیوں کی ایک نئی تجسیم " اسلام فوبیا " کو شکست دینے کے لئے تیار اور تمام صلاحیتوں سے لیس ہیں۔

###

فہیم شعیب اوک لینڈ، کیلی فورنیا میں مسجد الوارثین کے امام اور محمد سکولز آف اوک لینڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ مضمون افریقی نژاد امریکیوں کے بارے میں کامن گراؤنڈ نیوز سروس کے لئے لکھی گئی تحریروں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اوراسے درج ذیل ویب سائٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے:
http://www.commongroundnews.org/

0 comments:

Post a Comment