کیا گوانتانامو کے فیصلے سے امریکہ کا امیج بہتر ہو جائے گا?

سیزر شیلالا

نیویارک، نیویارک: حال ہی میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے گوانتانامو کے قیدیوں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ وہ اپنی حراست کو امریکہ کی سِول عدالتوں میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جس سے ممکنہ طور پر گوانتانامو کی جیل بند کئے جانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے، جارج ڈبلیو بُش کی حکومت کی لوگوں کو حراست میں لینے کی متنازعہ پالیسیوں کے لئے شدید دھچکا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ موجودہ امریکی انتظامیہ کے لئے بیک وقت عالمی سطح پر بالخصوص مسلم دنیا میں امریکہ کے مؤقف کو نقصان پہنچانے والی خلیج کو پاٹنے اور امریکی سیکورٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کا موقع بھی ہے۔

گوانتانامو اورابوغریب، عراق کی جیلوں میں بند قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے ثبوت منظرِ عام پر آنے کے بعد سے امریکہ کے امیج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان جیلوں میں گیارہ ستمبر کے بعد دہشت گردی کے شُبہے میں پکڑے جانے والوں کو قید کیا گیا ہے اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر مجرم ہیں۔ جب کہ انسانی حقوق کے علمبردار سوال کرتے ہیں کہ کسی قانونی ضابطے پر عمل کئے بغیر اور فرد ِجرم کی عدم موجودگی میں وہ ان کے مجرم ہونے کے بارے میں اتنا یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی 2008 کی رپورٹ " قیدِ تنہائی : گوانتانامو میں حراست کے حالات اور ذہنی صحت " کے مطابق گوانتانامو کی جیل میں اس وقت موجود 270 قیدیوں میں سے زیادہ تر کسی فردِ جرم کے بغیر امریکہ کی قید میں چھ سال سے زیادہ عرصہ گزار چکے ہیں۔

گوانتانامو میں بند مشتبہ افراد کو ایسے حالات میں رکھا گیا ہے جو ظالمانہ اور غیر انسانی سزاؤں کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ قیدیوں کے بنیادی انسانی اور صحت کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ قیدیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں بھوک ہڑتال کرنے والوں کو زبردستی کھانا کھلانا، ناک میں نالی ڈال کر غذا دینا اور انہیں طویل عرصے تک تنہائی میں رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔

ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی ( آئی سی آر سی) کا کہنا ہے کہ یہ حرکتیں تشدد کے زمرے میں آتی ہیں۔ 2004 میں ڈاکٹر رابرٹ جے لفٹن نے رپورٹ دی تھی کہ " اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عراق، افغانستان اور گوانتانامو بے میں ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبّی عملہ تشدد اور دیگر غیر قانونی کارروائیوں میں شریکِ کار ہے۔" آئی سی آر سی نے ایک بار یہ الزام بھی لگایا تھا کہ امریکی تفتیش کار طبّی عملے کو ایسی کارروائیوں میں شریک کرتے ہیں جنہیں کمیٹی نے " طّب کے اخلاقی اصولوں کی بدترین خلاف ورزی" قرار دیا تھا۔

گوانتانامو کے قیدی روزانہ اوسطاً 22 گھنٹے ایسی کوٹھڑیوں میں تنہا گزارتے ہیں جہاں سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کا بہت کم گزر ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی وکیل یا آئی سی آر سی کا نمائندہ ان سے ملاقات کرنے ضرور چلا جاتا ہے لیکن انہیں ان کے اہل و عیال، دوستوں حتٰی کہ ایک دوسرے سے بھی ملنے نہیں دیا جاتا۔
یوں مسلسل الگ تھلگ رکھنا نہ صرف بین الاقوامی قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے قیدیوں کی ذہنی صحت کے مسائل پیدا یا شدید ہوسکتے ہیں اور وہ خودکشی کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ گوانتانامو میں اب تک چار قیدی خودکشی کر چکے ہیں جبکہ خودکشی کی کوششوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

جون 2006 میں وہاں تین قیدی مُردہ پائے گئے۔ پینٹا گون کے مطابق یہ " بظاہر اجتماعی خودکشی" کا واقعہ تھا۔ گوانتا نامو کے سینکڑوں قیدیوں کی نمائندگی کرنے والے مرکز برائے آئینی حقوق کی باربرا اولشینسکی بتاتی ہیں کہ قیدیوں میں مایوسی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ انہیں یقین ہے کہ انہیں کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ تاہم جیل کے کمانڈر ریئر ایڈمرل ہیری حارث کا مؤقف ہے کہ یہ مایوسی کی حرکت نہیں بلکہ " ہمارے خلاف آزمایا گیا ایک بھونڈا جنگی حربہ ہے۔"

گوانتانامو جیل سے رہا ہونے والے کئی قیدیوں نے مار پیٹ، سونے نہ دینے، دیر تک غیر آرام دہ پوزیشن میں رکھے جانے، زبردستی خوراک دینے اور ٹیکے لگانے، جنسی اور مذہبی تذلیل کا نشانہ بنانے اور دیگر طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بد سلوکی کی شکایت کی ہے۔ آئی سی آر سی نے بھی ان الزامات کی تصدیق کی ہے تاہم بُش انتظامیہ آئی سی آر سی کی تحقیق کے نتائج کو ماننے سے مسلسل انکار کرتی آرہی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی کئی رپورٹس میں گوانتانامو کی صورتحال کو " انسانی حقوق کا سکینڈل" قرار دے چکی ہے۔ لیکن 12 جون کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہمیں کسی حد تک پُرامید رہنے کی وجہ عطا کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر کینتھ روتھ کا تبصرہ ہے " سپریم کورٹ کے فیصلے نے گوانتانامو کو قائم رکھنے وجہ ختم کر دی ہے۔ یہ قانون سے بالاتر ایک ایساعلاقہ ہے جہاں قیدی اپنی حراست کو چیلنج نہیں کر سکتے۔" وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی مثالی فتح ہے بلکہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے مزید مؤثر اور ذہانت آمیز پالیسی بنانے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔

امریکی جج انتونیئن سکالیا نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ مزید امریکیوں کے مارے جانے کا سبب بنے گا۔ " اگر ہماری آئینی جمہوریہ کے لئے انتہائی اہم طویل عرصے سے محترم قانونی اصول کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہو تب تو اس نتیجے کو برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن آج کا فیصلہ عدالت کی طرف سے اس اصول کو یکسر پسِ پُشت ڈالنے کا نتیجہ ہے۔"

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ فیصلہ جب امریکیوں کی زندگیاں بچانے کی بات ہو تو اس میں روکاوٹ بنے گا اور نہ ہی گوانتانامو کے قیدیوں پر مقدمات چلانے اور اگر ضروری ہو تو انہیں مجرم قرار دینے سے رو کے گا۔ عدالت میں چلائے گئے مقدمات کی بنیاد پر قیدیوں کو سزا دینے یا رہا کرنے سے یہ ثابت ہوگا کہ امریکی آئین میں دیا گیا قانون کی بالادستی کا تصور ایک کامیاب نمونہ ہے جو امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے اور جو بے قصور ہیں انہیں قانونی عمل کے ذریعے آزاد کر دیتا ہے۔

###

٭ سیزر شیلالا صحت ِ عامہ کے بین الاقوامی کنسلٹنٹ اور انسانی حقوق پر لکھے گئے ایک مضمون پر اوورسیز پریس کلب آف امریکہ کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس کے لئے لکھا گیا ہے اوراسے درج ذیل ویب سائٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے:
http://www.commongroundnews.org/

0 comments:

Post a Comment